اردو کا سچا خادم: سہیل ساحل

Urdu Ka Musafi R
سعادت گنج،بارہ بنکی تحریر۔ابوشحمہ انصاری

اردو کا سچا خادم: سہیل ساحل

تحریر۔ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج،بارہ بنکی

اردو محض ایک زبان نہیں، یہ تہذیب، محبت، اور انسانیت کی وہ خوشبو ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے۔ اسی خوشبو کو باقی رکھنے کے لیے کچھ لوگ اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ سہیل ساحل انہی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اردو کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے اپنے خوابوں، وقت اور عزم کو یکجا کر کے ایک عملی تحریک برپا کی۔ وہ اس نسل کے نمائندہ ہیں جو لفظوں سے محبت کرتی ہے، اور زبان کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ احساسات کی ترجمان سمجھتی ہے۔
جب اردو صحافت کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا تھا اور قارئین کا رشتہ مطالعے سے کمزور پڑ رہا تھا، تب سہیل ساحل نے اپنے جذبے سے امید کا چراغ روشن کیا۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ “اہلِ قلم” آج اردو کے شائقین کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ابتدا میں انہوں نے اس رسالے کو ہفتہ وار آن لائن ای میگزین کے طور پر شروع کیا۔ یہ قدم بظاہر معمولی تھا، مگر اس کے پیچھے ایک وسیع وژن اور عزم چھپا تھا۔اردو کو نئی ٹیکنالوجی کے دور میں نئے انداز سے زندہ رکھنے کا عزم۔
اہلِ قلم کے اب تک آٹھ آن لائن شمارے شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے چار خصوصی گوشے تھے۔منور رانا گوشہ، اے پی جے عبدالکلام گوشہ، یومِ آزادی گوشہ اور نسرین حمزہ گوشہ۔ ان میں منور رانا اور نسرین حمزہ کے گوشے باقاعدہ پرنٹ ایڈیشن میں منظر عام پر آئے، جنہیں اردو حلقوں میں بے حد سراہا گیا۔ یہ اقدام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سہیل ساحل محض مدیر نہیں بلکہ اردو کے سچے عاشق ہیں، جو ہر شمارے کو صرف کاغذ کا رسالہ نہیں بلکہ محبت، ادبی احترام اور فکری وابستگی کی علامت بناتے ہیں۔
قارئین کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اسے باقاعدہ ماہنامہ کی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر سے یہ رسالہ فور کلر میں اعلیٰ معیار کے کاغذ پر شائع ہونے لگا۔ اس کے صفحات 48 ہیں، جن میں مضامین، انٹرویوز، شاعری، اور ادبی تبصرے نہایت سلیقے سے شامل کیے گئے ہیں۔ سہیل ساحل کا کہنا ہے کہ “اہلِ قلم” صرف ایک میگزین نہیں بلکہ یہ اردو کے ہر محب کے دل کی آواز ہے، جو قلم کے ذریعہ اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔
سہیل ساحل کی خدمات کا دائرہ صرف ادارت تک محدود نہیں۔ وہ بزم اردو ادب کے چیئرمین اور روحِ رواں بھی ہیں۔ ان کی قیادت میں ملک کے مختلف حصوں میں اب تک پچیس اردو کوچنگ سینٹرز قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں 12 سال کے بچوں سے لے کر 60 سال کی خواتین تک اردو سیکھ رہی ہیں۔ یہ محض ادارے نہیں بلکہ اردو سے جڑنے کی ایک خاموش مگر مضبوط تحریک ہے۔ ان سینٹروں میں روزانہ ایسے لوگ آتے ہیں جو اردو حروف سے واقف نہیں، مگر محبت کے جذبے سے لبریز ہیں۔
ایک گفتگو میں سہیل ساحل نے بتایا کہ انہوں نے آگرہ میں ایک مرکز عائشہ کوچنگ سینٹر کے نام سے قائم کیا ہے، جسے معروف ادیبہ ڈاکٹر سعدیہ سلیم شمسی صاحبہ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے فخر سے ذکر کیا کہ ایک خاتون تقریباً ڈھائی کلومیٹر پیدل چل کر روزانہ اردو سیکھنے آتی ہیں۔ یہ منظر ان کے لیے باعثِ فخر اور تحریک کا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، اس دورِ مادیت میں بھی اردو سے محبت رکھنے والے دل اب بھی زندہ ہیں، بس ضرورت ہے کہ انہیں پہچانا جائ

Urdu 1024x708

ے۔
اسی طرح بہار میں بھی سہیل ساحل کی رہنمائی میں ایک مرکز “الفلاح اردو کلاسس” کے نام سے سرگرم ہے۔ حیرت انگیز طور پر وہاں 13 غیر مسلم خواتین بھی اردو سیکھنے آتی ہیں۔ یہ منظر سہیل ساحل کے لیے سب سے قیمتی انعام ہے۔ ان کے مطابق، “اردو کسی مذہب یا فرقے کی زبان نہیں، بلکہ یہ دلوں کو جوڑنے والی تہذیب کی زبان ہے۔” اس نظریے نے ان کے کام کو ایک وسیع تر انسانی جہت بخشی ہے۔
ان تمام کوششوں سے سہیل ساحل کا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ اردو کے فروغ کے لیے صرف لفظوں کی نہیں بلکہ جذبے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، “اگر دل میں محبت ہو تو اردو ہر زبان بولنے والے کی زبان بن سکتی ہے۔” یہی جذبہ “اہلِ قلم” کی ہر تحریر، ہر گوشے، اور ہر اشاعت میں جھلکتا ہے۔
اردو کے لیے سہیل ساحل کی جدوجہد میں وہ تسلسل اور خلوص دکھائی دیتا ہے جو کسی مشن کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک اردو ایک ایسی گنگا ہے جو سب کو اپنے آغوش میں جگہ دیتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر آنے والی نسل کو اردو کے ذریعے اپنی تہذیب اور تاریخ سے جوڑ دیا جائے تو یہ زبان کبھی مٹ نہیں سکتی۔
سہیل ساحل کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ مگر انہوں نے ہر چیلنج کو موقع میں بدل دیا۔ چاہے ای میگزین کی ابتدا ہو یا پرنٹ ایڈیشن کی اشاعت، کوچنگ سینٹرز کا قیام ہو یا خواتین کو تعلیم سے جوڑنے کی کوشش،ہر قدم پر ان کی سنجیدگی، عزم اور محبت نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کا یہی جذبہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سہیل ساحل اردو کے ایک ایسے خادم ہیں جنہوں نے لفظوں سے رشتہ جوڑ کر آنے والی نسلوں کے لیے محبت، علم اور روشنی کی راہ ہموار کی ہے۔ ماہنامہ اہلِ قلم ان کے خوابوں، محنت اور اردو سے عشق کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ وہ ثابت کر چکے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، ارادہ مضبوط ہو، تو ایک فرد بھی پوری زبان کی روح کو تازگی بخش سکتا ہے۔ سہیل ساحل کی یہ جدوجہد اردو کے لیے نہیں، بلکہ اردو کے ذریعے انسانیت کے لیے ہے۔ اور یہی ان کی اصل پہچان ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *