از۔ذکی طارق
ادب دراصل انسانی ذہن کی ارتقائی روداد ہے۔ ہر عہد اپنے فکری موسم کے زیرِ اثر نئے تخلیق کار پیدا کرتا ہے، مگر بعض اذہان ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے قالب میں نہیں سماتے، بلکہ خود وقت کے پیمانے کو بدل دیتے ہیں۔ مرزا اسداللہ خان غالب اردو شاعری کے اُفق پر ایسا ہی آفتاب تھے جن کی روشنی آج بھی ذہن و دل کے افق پر تابندہ ہے۔
یہ سوال کہ “غالب کا بدل کیوں پیدا نہیں ہوا؟” محض ایک ادبی جستجو نہیں بلکہ ایک تہہ دار فکری معمہ ہے؛ ایسا معمہ جس میں تاریخ، تہذیب، نفسیات اور فلسفہ، سب کے سب ایک دوسرے سے گتھے ہوئے ہیں۔
غالب محض شاعر نہیں تھے، وہ ایک فکری کیمیاگر تھے جنہوں نے روایتی غزل کے تانبے کو جدید معنویت کے سونے میں ڈھالا۔
ان کے اشعار میں عشق اپنی روایتی رنگینی کے ساتھ ساتھ وجودی کرب اور فلسفیانہ جستجو کا آئینہ بن گیا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے”
یہ دو مصرعے انسان کے لاشعور میں اتر جانے والی ایک ابدی صدائے دل ہیں جہاں خواہش، فنا کی تمہید ہے اور آرزو، عدم کی مسکراہٹ۔
غالب نے لفظ کو معنٰی کی تہہ سے گزار کر اس میں فکر کا خون شامل کیا۔ ان کی شاعری میں فارسی کی شان و شوکت اور اردو کی نرمی اس طرح ملتی ہے کہ گویا عقل اور جذبہ ایک ہی ناؤ میں سوار ہوں۔
انیسویں صدی کا ہندوستان صرف سیاسی زوال نہیں بلکہ تہذیبی انحطاط کا المیہ بھی تھا۔
1857 کی بغاوت، درباروں کی اجڑی ہوئی رونقیں، اور غالب کی ذاتی محرومیاں ان سب نے ان کے فن کو ایک ایسی تپش بخشی جو محض لفظوں کی صناعی سے ممکن نہیں۔
غالب کی عظمت ان کے تخیل کی وسعت میں نہیں بلکہ ان کے تجربے کی سچائی میں پوشیدہ ہے۔
یہی وہ سچائی ہے جو ان کے بعد آنے والے کسی شاعر کو میسر نہیں ہوئی، کیونکہ تاریخ اپنے درد کو دہراتی

نہیں، صرف یاد رکھتی ہے۔
آج کی شاعری اپنی جگہ قابلِ قدر ہے۔
فیض کی انقلابی رعنائی، اقبال کا فلسفہ، پروین شاکر کا نسائی احساس، اور جون ایلیا کا وجودی اضطراب، سب اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔
مگر غالب کی طرح کسی کے یہاں حکمت اور درد کا وہ امتزاج نہیں جو لفظ کو وقت کے پار لے جائے۔
آج کے شاعر کے پاس اظہار کی آزادی ہے، مگر فکر کی اس گہرائی کا فقدان ہے جو روح کے اندھیرے میں چراغ جلاتی ہے۔
غالب نے زبان کو محض اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربہ بنا دیا۔
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
یہ شعر محض تمثیل نہیں، بلکہ انسانی وجود کا فلسفہ ہے فنا میں بقا کی تلاش، اور تکلیف میں تسکین کا کشف۔
غالب کے عہد کی روح علم و عرفان، شعر و فلسفہ اور روایت کے توازن پر قائم تھی۔
آج کا زمانہ تیز رفتار، سطحی اور ڈیجیٹل ہے؛ جہاں تخلیق “وائرل” ہوتی ہے، امر نہیں۔
سوشل میڈیا نے شاعری کو عوامی تو بنا دیا، مگر اس کی روح تجارتی ہلچل میں دب گئی۔
ادب اب تخلیق سے زیادہ “پوسٹ” ہو گیا ہے۔
اور یہ وہ فاصلہ ہے جہاں غالب کے تجربے کا گہرائی والا سمندر، آج کے اظہار کی جھاگ سے الگ نظر آتا ہے۔
نفسیاتی لحاظ سے بھی غالب ایک معمّہ تھے۔
شراب، عشق، قمار اور فلسفہ یہ سب ان کی ذات کے مختلف پہلو نہیں بلکہ ان کے داخلی اضطراب کے استعارے تھے۔
ان کا درد اجتماعی بھی تھا اور ذاتی بھی، مگر ہمیشہ فکری سطح پر بلند۔
یہی وہ مقام ہے جہاں کارل یونگ کے مطابق وہ “آرکی ٹائپ آف دا پوئٹ” بن جاتے ہیں یعنی وہ ازلی شاعر جس کی تخلیق انسان کے لاشعور کی گہرائی سے پھوٹتی ہے۔
غالب کی علمی بنیاد فارسی، عربی، منطق اور فلسفہ پر تھی۔
آج کی تعلیم مادیت، سائنس اور انگریزی اثرات کی اسیر ہے۔
ہماری نئی نسل کے شعراء زبان کے سادہ حسن کے قائل ہیں مگر معنٰی کی پیچیدگی سے خوفزدہ۔
یوں معلوم ہوتا ہے جیسے زبان کا جسم تو زندہ ہے، مگر اس کی روح زخمی ہے۔
ادبی تنقید نے بھی سطحی رویہ اختیار کر لیا ہے جہاں تنقید محض تعریف یا نفی بن گئی ہے، تجزیہ نہیں۔
غالب کا بدل نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ بعد کے شعراء کم تر ہیں، بلکہ یہ ہے کہ غالب ایک تاریخی اتفاق تھے
ایک ایسا لمحہ جب ذہن، دل، اور زمانہ تینوں ایک ہی وجود کی دھڑکن میں تھے۔
ایسے ادوار صدیوں میں ایک بار جنم لیتے ہیں۔
اس لیے غالب کا نہ ہونا، ایک خلا نہیں بلکہ ایک اُفق ہے
جہاں سے ہر نیا شاعر اپنی روشنی مستعار لیتا ہے۔
شاعری زندہ ہے، کیونکہ انسان ابھی تک خواب دیکھتا ہے، محبت کرتا ہے، اور روتا ہے۔
جب تک درد اور آرزو باقی ہیں، غالب کی روح نئے لہجوں میں، نئے چہروں میں، نئے لفظوں میں سانس لیتی رہے گی۔
لیکن مرزا غالب؟
“ایک ہی تھے، ایک ہی رہیں گے”
کیونکہ بعض شخصیتیں وجودِ فن نہیں، فطرت کا فیضان ہوتی ہیں۔
