تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلیڈ۔ یوکے۔
اردو ادب کی تازہ رَو میں اگر کسی نام کو وقار، شائستگی، فکری امارت اور تہذیبی نجابت کے ساتھ یاد کیا جائے تو ڈاکٹر مجیب شہزر بے تردید طور پر ان اسما میں شامل ہیں جنہوں نے لفظ کو نہ صرف وقعت بخشی بلکہ اپنے ہونے سے شعر و ادب کی دنیا کو ایک نفیس وقار عطا کیا۔ وہ علیگڑھ کی اسی علمی فضا کے فرزند ہیں جس نے سرسید سے لے کر عصرِ حاضر تک بے شمار اصحابِ فکر و نظر کو پروان چڑھایا۔ ان کی ذات میں استاد، شاعر، منتظم، محقق، مدیر اور انسانِ کامل سب جمع ہیں۔ وہ ایک مایۂ ناز تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے تدبیر و تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اپنی ذہانت و فطانت سے نئی نسل میں زبان و تہذیب کی پاسداری کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا طرزِ تدریس محض نصاب کی حد تک محدود نہیں بلکہ شخصیت سازی، گفتگو کی تہذیب اور سماجی شعور کی آبیاری تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا وقار، سنجیدگی اور شائستگی انہیں محض ایک سربراہِ ادارہ نہیں بلکہ مربی و سرپرست کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔
فن کی دنیا میں ڈاکٹر مجیب شہزر ایک ہمہ جہت تخلیقی شخصیت ہیں۔ کلاسیکی سانچوں پر قادر الکلام بھی اور جدید شعری میلان کے رمز شناس بھی۔ غزل ان کے ہاں روایت کی نزاکت اور تجربے کی تازگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے، جبکہ نظم میں وہ معنیاتی توسیع اور فکری تہہ داری کے ذریعے اپنے عہد کے مسائل کو ایک شائستہ مگر مؤثر آواز دیتے ہیں۔ رباعی ہو یا قطعہ، آزادیٔ اظہار ہو یا پابند ہیئت، ان کا قلم ہر صنف میں وقار کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہندی اور اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی ان کی طبع آزمائی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی تخلیقی قوت کسی ایک لسانی دائرے کی پابند نہیں۔ وہ زبان کو ایک تہذیبی ورثہ اور جمالیاتی وسیلہ سمجھ کر برتتے ہیں اور ہر اس اسلوب سے پرہیز کرتے ہیں جو سوقیانہ اظہار یا ارزاں تاثیر پر مبنی ہو۔ ان کا شعری لہجہ نقرئی سلاست اور فکری ضبط کی وہ ملابٹ رکھتا ہے جو نہ تو جذبات کی ارزانی میں کھو جائے اور نہ ہی تجرید کی خشکی میں تحلیل ہو۔
انسانی وقار، معاشرتی توازن، اخلاقی استواری اور روحانی بالیدگی ان کے یہاں کسی خطیبانہ اصرار کے بجائے داخلی صداقت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ وہ معاشرتی تضادات کو محض تنقید کے زاویے سے نہیں دیکھتے بلکہ انسانی خیر اور اجتماعی شعور کی بازیافت کو اپنا شعری وظیفہ سمجھتے ہیں۔ زبان کی سطح پر ان کا شعر نہ گھمنڈ کا شکار ہوتا ہے نہ سہل پسندی کی نذر۔ ترکیبوں میں شفافیت اور محاوروں میں نفاست ان کا مستقل اسلوبی جوہر ہے۔ ان کے ہاں مضمون آفرینی محض ہنر نہیں بلکہ ایک باوقار شعری شرافت کی علامت ہے۔
شخصیت کے اعتبار سے ان کی سب سے نمایاں جہت اعلی اخلاق، مروّت اور وضع داری ہے۔ شاگرد ہوں یا ہم عصر، قلمکار ہوں یا قاری ۔ ہر ایک کے ساتھ ان کا برتاؤ احترام، خلوص اور خیر خواہی سے لبریز ہوتا ہے۔ وہ محفل میں بیٹھیں تو شگفتگی، گفتگو کریں تو مطالعے اور تجربے کا نچوڑ نمایاں ہو۔ دکھ اور اختلاف کے مواقع پر بھی ان کا لہجہ شائستگی اور حلم سے جدا نہیں ہوتا۔ یہی حسنِ اخلاق انہیں محض شاعر یا معلم نہیں بلکہ استادِ سخنور کا درجہ عطا کرتا ہے۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف ماحول میں علمی وقار کی خوشبو پھیلتی ہے بلکہ دلوں میں محبت، اعتماد اور اعتبار کے رنگ بھی ابھرتے ہیں۔

ادبی دنیا میں ان کی خدمات کا ایک روشن حوالہ رسالہ ’’قرطاس‘‘ سے ان کی وابستگی ہے جو لندن سے شائع ہوتا ہے۔ نائب مدیر کی حیثیت سے وہ نہ صرف ادارت کے دقیق تقاضے پورے کرتے ہیں بلکہ عالمی تناظر میں اردو ادب کی نمائندگی اور ترویج کے لیے فکری تنوع اور معیاری تحریر کا انتخاب بھی ان کے ذوقِ انتخاب کی دلیل ہے۔ وہ نئے لکھنے والوں کو نہ صرف حوصلہ دیتے ہیں بلکہ ان کی اصلاح اور رہنمائی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ خدمت دراصل اردو زبان اور تہذیب کے لیے ان کی وابستگی کا ایک مظہر ہے، جو کسی رسمی ذمہ داری کے بجائے ایک قلبی عہد کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
ان کی مجلس میں بیٹھ کر جو شخص واپس لوٹے وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ اس نے صرف ایک انسان سے ملاقات نہیں کی بلکہ اخلاقی برتری، فکری زریں کاری اور تہذیبی شائستگی کے ایک مرقع سے گزر کر آیا ہے۔ ڈاکٹر مجیب شہزر آج کی ادبی و سماجی فضا میں اس ندرت اور توازن کے امین ہیں جو کم کم شخصیات کو میسر آتا ہے۔ وہ نہ فقط اپنے فن سے پہچانے جاتے ہیں بلکہ اپنی شخصیت سے فن کو پہچان عطا کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کی شاہد ہیں کہ شعر اگر شعور کا زیور ہے تو کردار اس کی تفسیر۔ ان کی ذات ایک ایسی خوش آہنگ آمیزش ہے جہاں لفظ اپنی وقعت سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنی نسبت سے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آنے والے عہد میں جب اردو شاعری کے جدید زاویوں کا جائزہ لیا جائے گا تو ڈاکٹر مجیب شہزر کا ذکر نہ ثانوی ہوگا نہ سرسری، بلکہ ان کے فن و شخصیت کے امتزاج سے ایک ایسا حوالہ قائم ہوگا جو ادب کے وقار اور انسان کی عظمت دونوں کو یکساں روشنی دے گا۔
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلیڈ۔ یوکے۔
