مولانا ابوالکلا آزاد کی کہی گئی باتوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے: پروفیسر زاہد الحق

merut mushayra

میرٹھ13/نومبر2025ء
مولا نا آزاد کی شخصیت سے سب واقف ہیں۔آپ صحافت سے وابستہ رہے اور دور اندیشی سے کام لیا۔ان کے زمانے میں ان پر تنقید بھی کی گئی۔ ان کی دور اندیشی پر اس لیے بھی حیرانی کہاب سے سینکڑوں برس پہلے جو باتیں کہی تھیں ان کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ہندوستان میں تمام وزراء تعلیم کی خدمات ایک طرف ہیں اور صرف مولانا آزاد کی تعلیمی خدمات ان پر بھا ری ہیں۔ جدید طبّی ادارے اور تعلیمی میدان میں آپ کی خدمات قابل تعریف ہیں۔یہ الفاظ تھے معروف محقق و ناقدپروفیسر زاہدہ الحق کے جو آیو سا اور شعبہئ اردو کے زیر اہتمام منعقد ”مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات“ موضوع پر اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایو سا کے زیر اہتمام نو جوان نسل کی بڑی اچھی تربیت ہورہی ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔پروگرام کی سرپرستی معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی اور صدارت کے فرائض معروف ادیب وناقدپروفیسر صغیر افراہیم نے انجام دیے۔مہمانان خصوصی کے بطور پروفیسر ریاض احمد ]پرنسپل کالج آف ٹیچر ایجوکیشن،نوح،مانو[،پروفیسر زاہد الحق]شعبہئ اردو،سینٹرل یونیورسٹی،حیدر آباد[ مہمانان ذی وقار کے بطور ڈاکٹر مجاہدالاسلام ]ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہئ اردو،مولا نا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،لکھنؤ کیمپس[،ڈاکٹر کہکشاں لطیف ]شعبہئ ترجمہ نگاری،مانو، حیدر آباد[ڈاکٹر محمد اکمل]کے ایم سی،لکھنؤ[ نے شر کت فرمائی۔مقررین کے بطور لکھنؤ سے ایوسا کی صدر پروفیسر ریشما پروین اورمیرٹھ سے ذیشان خان موجود رہے۔ استقبالیہ طاہرہ پروین نظامت علمانصیب اور شکریے کی رسم محمد ہارون نے ادا کی۔
موضوع کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کہا کہ ادب کا ہر قا ری مولانا ابو الکلام آزاد کی خدمات سے واقف ہے۔لیکن پھر بھی مولانا کے بہت سے ایسے گوشے ہیں جن ہمارے اسکالرز غور و خوض کرتے رہتے ہیں۔ ایسے طلبا اور ریسرچ اسکالر ز کی رہنما ئی کے لیے آج کا یہ پروگرام اپنے آپ میں انفرادی حیثیت رکھتاہے۔مولانا آزاد کی سیاسی،سماجی اور تعلیمی خدمات سے آج تک ہمارے اسکالرز استفادہ کررہے ہیں۔ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔

merut mushayra


پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ مولانا ابو الکلام آزادایک اچھے صحافی،مدیر،ماہر تعلیم، اچھے ادیب اور بہترین سیاسی رہنما تھے۔ مولانا آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔آپ نے تعلیم کے میدان میں جو بنیادی کام کیے وہ آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔ان کی تقریریں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کی ہوئی تقریر بڑی اہمیت رکھتی ہے۔انہوں نے مشترکہ تہذیب کو عام کیا۔
ڈاکٹر محمد اکمل نے کہا کہ مولا نا ابو الکلام آزاد کو پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ یونیورسٹی آف ایجو کیشن کا قیام مولانا آزاد نے کیا۔ آپ نے ایجو کیشنل لائبریریاں بھی قائم کیں۔ تعلیم نسواں پر خاص توجہ دی۔ان کے مطابق تعلیم کا مقصد انسان کی تعمیر نو تھا۔ آپ نے مسلم معاشرہ کی اصلا ح کے لیے غور و فکر کیا۔ آپ مسلمانوں کے سیاسی،معاشی حالات سے بخوبی واقف تھے۔
ذیشان خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ’الہلال‘ کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں مونا نے کہا تھا ہم اپنی مادّی دولت اور سازو سامان کو توطبقا تی اور جغرافیائی حد بندیوں میں قید کرسکتے ہیں مگر تعلیم اور تہذیب کو قید نہیں کرسکتے کیو نکہ یہ تمام انسانوں کی میراث ہے اور اس میں کوتاہی سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ اے ہندوستانیوں تمہارا ایک ہی مقصد ہو نا چاہئے اور وہ ہے ملک کی آ زادی اور اگر اس کے لیے تمہاری جان بھی چلی جائے تو اس قربانی پر پوری قوم کو فخر ہو گا اور آنے والی نسلیں تمہیں یاد کریں گی اور تمہاری مثال دی جائے گی۔
ڈاکٹر کہکشاں لطیف نے کہا کہ ہم اپنے بزرگوں کو بہت جلد بھلا دیتے ہیں سر سید،مولانا آزاد اور علامہ اقبال ایسے رہنما رہے ہیں جن کو آج ہم بھولے بیٹھے ہیں مگر مولاناابوالکلام آزاد ایسی اہم شخصیت کے مالک ہیں جن کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔مولانا آزاد کو ہم یاد تو کرتے ہیں مگر ان کی خدمات سے ہم ابھی بھی نا واقف ہیں ”لسان الصدق“ ان کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں تعلیم کی اہمیت اور ان کی تخلیقی صلاحیت پنہا ہے۔اس موقع پر سید انوار صفی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلق اپنا خوبصورت مقالہ پیش کیا۔
پروفیسر ریاض احمد نے کہا کہ مولاناآزاد نے تعلیمی نظام کو مستقبل کی ضروریات کے تعلق سے ہمارے سامنے پیش کیا۔جس وقت ہمیں آزادی ملی اس وقت ہماری معاشی حالت اچھی نہیں تھی۔ اس وقت مولانا آزاد نے سیاسی،تعلیمی اور ثقافتی خدمات کو بخو بی انجام دیا۔
اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ مولانا ابولکلام آزاد اور سر سید دونوں نے خوا تین کی تعلیم پر زور دیا۔مولانا آزاد جس محفل میں جاتے تھے اپنے ٹا پک کے حساب سے چھا جاتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنما کے نقش قدم پر ہمیں چلنا چاہئے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ہمارے لیے آئیڈیل ہیں۔ تعلیم،تہذیب اور تربیت کے اعتبار سے خانقاہیں بہت اہم رہی ہیں۔ مولا کا تعلق بھی خا نقاہ سے رہا تھا۔
.پروگرام سے ڈاکٹر آصف علی، ڈاکٹر شاداب علیم، ڈاکٹر الکا وششٹھ،محمد شمشاد اور طلبہ و طالبات جڑے رہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *